تحریر: مولانا سید علی ہاشم عابدی
حوزہ نیوز ایجنسی। معبود کی یاد اور خالق کا ذکر جہاں شکر خدا کے مترادف اور احسان مندی کا تقاضا ہے وہیں پروردگار کی یاد سے دلوں کو سکون ملتا ہے اور دنیا و آخرت میں انسان کی سعادت کی ضامن ہے۔ اور بغیر ذکر پروردگار کے نعمت ایمان تک انسان کی رسائی ممکن نہیں کیوں کہ ایمان دل سے یقین ، زبان سے اقرار اور اعضاء و جوارح سے عمل کا نام ہے، دل و زبان کی ایمانی کیفیت کا نام ہی ذکر ہے اور اسی ذکر کے نتیجہ کو عمل کہتے ہیں۔
قرآن میں اللہ تبارک و تعالی نے اپنے ذکر کا تاکیدی حکم فرمایا کہ زیادہ سے زیادہ اس کا ذکر کرو اور ذکر کے فوائد اور ذاکرین کی عظمت کو بیان کیا ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: چا ر چیزیں صاحبان ایمان کا مقدر ہے جسمیں سے ایک ذکر خدا ہے۔ (بحارالانوار، جلد ۷۴، صفحہ ۹۰)
امیرالمومنین السلام نے فرمایاـ: ذکر خدا ہر نیک اور باایمان انسان کی خصوصیت ہے۔ (بحارالانوار جلد ۹۰، صفحہ ۱۶۵) ، امام جعفر صادق علیہ السلام سے ابوبصیر نے مومن کی موت کے سلسلہ میں سوال کیا تو امام ؑ نے فرمایا: ممکن ہے کہ مومن کو آسمانی بجلی سے موت آ جائے لیکن جو اللہ کا ذکر کرتے ہیں انہیں اس سے موت نہیں آئے گی۔ (کافی جلد ۲، صفحہ ۵۰۰)، امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت ہے کہ خدا نے فرمایا ’’جو میرا ذکر کرتے ہوئے مجھ سے کچھ طلب کرتے تو میں انکو اس سے زیادہ عطاکرتا ہوں جو صرف مجھ سے مانگتے ہیں۔ (کافی، جلد ۲، صفحہ ۵۰۱) رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: مخفی عبادت بہترین عبادت ہیں اور مخفی ذکر ہی بہترین ذکر ہے۔ (ارشادالقلوب جلد ۱، صفحہ ۹۳) رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنے جلیل القدر صحابی جناب ابوذر سے فرمایا: ائے ابوذر ! خدا کا ذکر اخلاص کے ساتھ کرو،۔ جناب ابوذر نے پوچھا خالص ذکر کیا ہے؟ آپؐ نے فرمایا: مخفی ذکر۔ (اعلام الدین۔ صفحہ ۱۹۳)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شہادت کے بعد سے آج تک عالم اسلام میں جس طرح خلافت ایک اختلافی مسئلہ ہے اور صدیوں سے اس سلسلہ میں مناظرات ہوئے ، تقریریں ہوئیں، کتابیں لکھی گئیں، دلیلیں پیش کی گئیں لیکن نہ ماننے والے ماننے کو تیار نہیں اسی طرح ایک اہم مسئلہ جس پر صدیوں مناظرے ہوئے ، کتابیں بھی لکھی گئیں اور دلیلیں بھی دی گئیں وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے شفیق و کفیل چچا حضرت ابوطالب علیہ الصلوۃ و السلام کی شخصیت اور آپؑ کا ایمان ہے۔
عالم اسلام کا سارا زور اس بات پر ہے کہ حضرت ابوطالبؑ نے ظاہرا زبان پر کلمہ جاری نہیں کیا ۔ اور یہی نظریہ آگے چل کر خطرناک صورت حال اختیار کر لیتا ہے اور بات جناب ابوطالبؑ پر ختم نہیں ہوتی ، جراتیں بڑھتی ہیں، جسارتیں چڑھتی ہیں اور یہی انسان آگے بڑھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے والدین گرامی کی بھی توہین کر بیٹھتا ہے اور انکی بھی شخصیت اور ایمان کو زیر سوال لاتے ہوئے ان کے مزاروں کو منہدم کر دیتا ہے۔
لیکن اگر ہم کتب تاریخ کی ورق گردانی کریں تو ہمیں یہی ملے گا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے آباء و اجداد اور خاندان والوں نے نہ کبھی بت پرستی کی، نہ کبھی بت کی قسم کھائی، نہ کبھی شراب پی اور نہ ہی کبھی زنا کے مرتکب ہوئے المختصر یہ لوگ کبھی کسی بھی حرام یا نا جائز کے مرتکب نہ ہوئے۔ صرف یہی نہیں بلکہ اعلان اسلام سے پہلے خود کے دین حنیف پر ہونے اور توحید کا اعلان کیا اوراس کے عملی نمونے بھی پیش کئے ہیں۔
اگر ہم ذکر خدا سے متعلق بیان کی گئی حدیثوں اور ان جیسی دیگر احادیث شریف کی روشنی میں جناب ابوطالبؑ کی شخصیت اور کردار کا مطالعہ کریں تو آپ کا کامل الایمان ہونا ثابت ہوتا ہے اور شائد یہی کمال ایمان سبب بنا کہ اللہ نے کل ایمان کے وجودسے آپ کی آغوش کو زینت دی۔
روایت میں ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے کھلم کھلا اسلام کا اعلان کیا تو عتبہ، ولید، ابوجہل اور عاص جناب ابوطالبؑ کے پاس آئے اور کہا کہ آپ اپنے بھتیجے سے کہیں کہ ہمارے خداؤوں کو برا بھلا نہ کہیں تو جناب ابوطالبؑ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے ان کا مدعا بیان کیا ۔ حضورؐ نے فرمایا: ائے چچا! اگر سورج کو میرے داہنے ہاتھ میں اور چاند کو بائیں ہاتھ میں رکھ دیں تب بھی میں اپنی بات سے پیچھے نہیں ہٹوں گا چاہے قتل کر دیا جاؤں۔ تو جناب ابوطالبؑ نے فرمایا:’’ امض لامرک فواللہ لا اخذلک ابدا‘‘ (خدا کی قسم میں آپ کے ساتھ ہوں اور آپ سے کبھی جدا نہیں ہوں گا۔
مذکورہ روایت میں حضرت ابوطالبؑ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور آپؐ کی رسالت کی حمایت کا اعلان کیا وہ بھی خدا کی قسم کے ساتھ۔ اور خدا کی قسم وہی کھائے گا جس کا خدا پر ایمان ہو۔
اعلان اسلام سے برسوں پہلے جب حضرت ابوطالبؑ کی حضرت فاطمہ بنت اسد سلام اللہ علیہا سے شادی ہوئی تو آپ نے خطبہ میں فرمایا ’’اَلْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ اَلْعَالَمِينَ رَبِّ اَلْعَرْشِ اَلْعَظِيمِ وَ اَلْمَقَامِ اَلْكَرِيمِ وَ اَلْمَشْعَرِ وَ اَلْحَطِيمِ اَلَّذِي اِصْطَفَانَا أَعْلاَماً وَ سَدَنَةً وَ عُرَفَاءَ خُلَصَاءَ وَ حَجَبَةً
بَهَالِيلَ أَطْهَاراً مِنَ اَلْخَنَى وَ اَلرَّيْبِ وَ اَلْأَذَى وَ اَلْعَيْبِ وَ أَقَامَ لَنَا اَلْمَشَاعِرَ وَ فَضَّلَنَا عَلَى اَلْعَشَائِرِ نُحِبُّ آلَ إِبْرَاهِيمَ وَ صَفْوَتَهُ وَ زَرْعَ إِسْمَاعِيلَ فِي كَلاَمٍ لَهُ ‘‘
(تمام تعریفیں اس اللہ کے لئے ہے جو عالمین کا پروردگار ہے، عرش عظیم، مقام کریم، مشعر و حطیم کا مالک ہے جس نے ہمیں نشانی کے طور پر منتخب کیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔( بحارالانوار جلد ۳۵، صفحہ ۹۸))
اس روایت سے بھی اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ حضرت ابوطالبؑ نے نزول قرآن سے برسوں پہلے ’’الحمدللہ رب العالمین‘‘ کی تلاوت کی اور اپنی خدا پرستی کے چراغ کی لو کو دور جاہلیت میں بھی مدھم نہیں ہونے دیا۔
کتنے تعجب کی بات ہے کہ ابن حجر ایک جانب تو یہ لکھتے ہیں
حضرت ابوطالبؑ ایمان نہیں لائے اور دوسری جانب انکے ان اشعار کو پیش کر رہے ہیں جسمیں توحید و رسالت کے جلوے نمایاں ہیں۔
و دعوتنی و علمت انک صاد ق
و لقد صدقت فکنت قبل امین
و لقد علمت بان دین محمد
من خبر ادیان البریة دین
ائے محمدؐ! تم نے مجھے اسلام کی طرف دعوت دی اور میں خوب جانتا ہوں کہ آپ یقیناً سچے ہیں کیونکہ آپ اس عہد نبوت کے اظہار سے قبل بھی لوگوں کی نظر میں سچے رہے ہیں۔ میں اچھی طرح جانتاہوں کہ اے محمد! آپ کا دین، دنیا کے تمام ادیان سے بہتر ہے۔ (ابن حجر ۔ صفحہ ۹۸)
کتنا حیرت خیز ہے کہ ابن حجر نے ان اشعار کو نقل کرنے کے بعد بھی حضرت ابوطالبؑ کے ایمان کا انکار کر دیا ۔ اور سب سے بڑھ کر خود جب حضورؐ کی جناب خدیجہ سلام اللہ علیہا سے شادی ہوئی تو حضرت ابوطالبؑ نے یوں خطبہ عقد پڑھا۔
الحمد للہ الذی جعلنا من زرع ابراھیم و ذریۃ اسماعیل و جعل لنا بیتا محجوبا و حرما آمنا یجبی الیہ ثمرات کل شی ء و جعلنا الحکام علی الناس فی بلد نا الذی نحن فیہ۔
(ساری تعریف اللہ کی ہے جس نے ہمیں نسل ابراہیمؑ اور ذریت اسماعیلؑ میں قرار دیا، ہمیں بیت حج (خانہ کعبہ ) کا پڑوسی اور حرم امن میں قرار دیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔(من لا یحضرہ الفقیہ جلد ۳، صفحہ ۳۹۷))
اس خطبہ میں بھی حضرت ابوطالب علیہ السلام نے اللہ کی وحدانیت کے اقرار کے ساتھ ساتھ اس کے گھر خانہ کعبہ کی عظمت کا اعتراف فرمایا اور اسی خطبہ میں آگے خود رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بھی مدح سرائی فرمائی۔ جسے شیعوں کے علاوہ اہل سنت میں آلوسی اور زمخشری وغیرہ نے بھی نقل کیا ہے۔
اسی طرح دیگر بہت سی روایات عامہ وخاصہ کی کتب میں موجود ہیں جن میں حضرت ابوطالبؑ نے اللہ کی وحدانیت، نبیؐ کی نبوت کی گواہی اور اسلام و قرآن کی عظمت کا اظہار کیا ہے۔ جو آپ کے کامل الایمان ہونے پر دلیل ہیں۔
حضرت ابوطالبؑ وہ عظیم ذات ہیں جنھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی کفالت و حمایت کی اور اسلام کی پاسبانی فرمائی نیز اپنی اولاد کو بھی ایسی تربیت کی کہ وہ بھی اسلام کی پاسبانی کریں۔ جس کے نتیجہ میں آپ کے بعد امیرالمومنین علیہ السلام ، حضرت امام حسن علیہ السلام ، حضرت امام حسین علیہ السلام بلکہ اس پاکیزہ نسل نے اور ان کے ماننے والوں نے حمایت اسلام کی سنت کو چار چاند لگائے۔ جس کے سبب ظلم و ستم کا شکار ہوئے اور شہید کئے گئے اور ان حامیان اسلام کے خلاف شام کے جعلی حدیثوں کے کارخانہ سے بہت سی حدیثیں گڑھی گئیں تا کہ ان خاصان خدا و رسول ؐ کی شخصیت اور ایمان کو مجروح کیا جا سکے۔ لیکن جو اپنے وجود کو راہ خدا میں فنا کر دیتے ہیں تو قادر مطلق پروردگار ابدی عز و شرف اور بقا ان کا مقدر قرار دیتا ہے۔
سلام ہو محسن اسلام پر، درود و سلام ہو کفیل رسولؐ پر۔